چاند کی چوری
گاؤں کا ننھا خواب گر
گاؤں کے ایک چھوٹے سے کچے مکان میں ایک ننھا سا لڑکا، حمزہ، اپنی دادی کے ساتھ رہتا تھا۔ حمزہ کو خواب دیکھنے کا بہت شوق تھا، اور ان خوابوں میں سب سے زیادہ محبوب خواب چاند کا تھا۔ وہ اکثر رات کے وقت آسمان کی طرف دیکھتا اور چاند کی چمکدار روشنی میں کھو جاتا۔ اسے لگتا جیسے چاند اس کا سب سے اچھا دوست ہے۔
ہر رات دادی اسے کہانیاں سناتی تھیں، اور چاند اکثر ان کہانیوں میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوتا۔ ایک دن حمزہ نے دادی سے پوچھا، “کیا میں چاند کو اپنے پاس رکھ سکتا ہوں؟” دادی مسکرائیں اور بولیں، “چاند سب کا ہے، بیٹا۔ یہ روشنی سب کے لیے ہے، جیسے خوشی سب کے ساتھ بانٹنے کے لیے ہوتی ہے۔” مگر حمزہ کا دل اس بات پر مطمئن نہ ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ چاند صرف اس کا ہو۔
چاند کو پکڑنے کی ترکیبیں
حمزہ نے چاند کو پکڑنے کے کئی طریقے سوچے۔ ایک دن وہ گاؤں کے سب سے اونچے درخت پر چڑھ گیا اور اپنے ہاتھ لمبے کر کے چاند کو چھونے کی کوشش کی، مگر وہ بہت دور تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ اگر وہ ایک بہت لمبی پتنگ بنائے، تو شاید وہ چاند تک پہنچ سکے۔ اس نے کاغذ اور لکڑی سے ایک خوبصورت پتنگ بنائی اور اسے آسمان میں چھوڑ دیا۔ مگر جیسے ہی اس نے پتنگ کو چاند کی طرف لے جانے کی کوشش کی، ہوا اسے مخالف سمت میں لے گئی۔
پھر حمزہ نے ایک اور ترکیب سوچی۔ وہ ایک چمکدار شیشے کا پیالہ لے کر تالاب کے کنارے گیا، جہاں چاند کا عکس پانی میں ہلکورے لے رہا تھا۔ “اب میں چاند کو پکڑ سکتا ہوں!” وہ خوشی سے چلایا اور پیالہ پانی میں ڈالا، مگر جیسے ہی پانی میں ہلچل ہوئی، چاند کا عکس ٹوٹ گیا۔ وہ حیران رہ گیا اور افسردہ ہو کر گھر واپس آیا۔
دادی کی دانائی
مایوس ہو کر وہ دادی کے پاس گیا اور اپنی ناکامی کا ذکر کیا۔ دادی نے اسے پیار سے دیکھا اور بولیں، “بیٹا، چاند کسی ایک کا نہیں، یہ سب کے لیے ہے۔ کچھ چیزیں بانٹنے سے ہی خوبصورت لگتی ہیں، جیسے چاند کی روشنی جو سب پر یکساں پڑتی ہے۔ اگر تم اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہو، تو دوسروں کے لیے بھی خوشی کا ذریعہ بننے دو۔”
حمزہ کو دادی کی بات سمجھ نہ آئی، مگر وہ اس کے بارے میں سوچنے لگا۔ اگلی رات جب چاند پھر سے نکلا، وہ کھڑکی میں بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ چاند کی روشنی کیسے سب جگہ جاتی ہے، ہر گلی، ہر چھت، ہر کھیت میں یکساں بکھرتی ہے۔ “شاید دادی صحیح کہتی ہیں، کچھ چیزیں سب کے ساتھ بانٹنے کے لیے ہوتی ہیں۔”
چاند اور دوستی کا سبق
اگلے دن حمزہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے گیا۔ اس نے انہیں اپنے چاند پکڑنے کے تمام منصوبے بتائے۔ اس کے دوست ہنس پڑے، مگر ایک دوست، علی، بولا، “اگر چاند تمہارا ہو جاتا تو ہم کیا دیکھتے؟ کیا ہمیں چاند دیکھنے کا حق نہیں؟”
حمزہ نے اس بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ وہ حیرانی سے بولا، “مگر میں چاند سے بہت محبت کرتا ہوں۔” علی نے مسکرا کر کہا، “اور ہم بھی! مگر کیا محبت کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی چیز کو قید کر لیں؟ یا یہ کہ ہم اسے سب کے ساتھ بانٹیں؟”
یہ سن کر حمزہ کے چہرے پر روشنی آ گئی۔ “شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ چاند سب کے لیے ہے، جیسے خوشی سب کے لیے ہونی چاہیے۔”
خوشی بانٹنے کا تجربہ
اس دن کے بعد حمزہ نے اپنے خوابوں کو بھی سب کے ساتھ بانٹنے کا فیصلہ کیا۔ وہ گاؤں کے بچوں کو اکٹھا کرتا اور انہیں دادی کی سنائی ہوئی کہانیاں سناتا۔ وہ ان کے ساتھ کھیلتا، ہنستا، اور خوشی بانٹتا۔
رات کو جب وہ چاند کی روشنی میں بیٹھتا، تو اسے ایسا لگتا جیسے چاند مسکرا رہا ہو، جیسے وہ خوش ہو کہ حمزہ نے سیکھ لیا ہے کہ اصل خوشی دوسروں کے ساتھ بانٹنے میں ہے۔
چاند کی چوری کی حقیقت
ایک ، جب چاند مکمل اور چمکدار تھا، حمزہ نے دادی سے کہا، “دادی، میں نے چاند کو چرا لیا!” دادی حیران ہو گئیں اور بولیں، “واقعی؟ کیسے؟”
حمزہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا، “میں نے چاند کی چمک کو اپنے دل میں رکھ لیا، اور اب میں اسے سب کے ساتھ بانٹتا ہوں!” دادی نے اسے پیار سے گلے لگا لیا۔
یہ سن کر دادی مسکرا دیں، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ حمزہ نے سب سے قیمتی سبق سیکھ لیا ہے: کچھ چیزیں سب کے ساتھ بانٹنے کے لیے ہوتی ہیں، اور اصل چمک دلوں میں ہوتی ہے،چاند کی چوری آسمان پر نہیں۔